تحقیق و ترتیب: ذہین علی نجفی
حوزہ نیوز ایجنسی | عشرۂ غدیر کے اختتام پر آئندہ غدیر کے حوالے سے جملہ کاوشوں کا جائزہ لیا گیا آئندہ کے لیے مزید بہتر حکمت عملی پر غور، گزشتہ کی طرح اس سال بھی ایک نئی بحث نے غدیر شناسی میں جان ڈالی آئیں ملاحظہ فرمائیں۔یہ کونسی نئی عید ہے ؟دار الحکومت سے کشمیر بھر میں ایک ہی آواز گونج رہی ہے شیعوں نے یہ کونسی عید نکالی ہے۔
جواب دیا کہ یہ شیعوں کی نہیں، بلکہ تمام مسلمانوں کی مشترکہ عید ہے جس نبی ص نے عید الفطر و اضحی بتائی اسی نبی ص نے فرمایا میری امت کی سب سے بڑی عید غدیر ہے اس لیے کہ دین و نعمت کا مکمل ہونا اور مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کا خدا کے حکم سے جانشین نبی ص مقرر ہونے سے بڑھ کر کوئی خوشی کا دن نہیں اس لیے اسے عید اکبر کہا گیا۔
رمضان مکمل تو عیدالفطر، حج مکمل تو عید الضحیٰ اور اسی طرح دین مکمل تو عید غدیر قرار دی گئی ۔
ہم کسی چیز کو نہیں جانتے، نہیں مانتے تو یہ بات دلیل نہیں کہ وہ چیز وجود نہیں رکھتی۔ عید غدیر آج سے نہیں 10 ھجری سے تھی اور رہیگی۔
الحمد للّٰہ گزشتہ پانچ سال سے جاری غدیر شناسی کمپین کا ڈراپ سین اس سال مظفرآباد سمیت ریاست کے کونے کونے تک جا پہنچا، حکومتی ایوانوں سے لیکر چوکوں چوراہوں تک، وکلاء کی کچہری سے لیکر جج صاحبان کے چیمبرز، مارکیٹوں بازاروں، تعلیمی اداروں ، سوشل میڈیا کے ذرائع سے لیکر ہر شعبہ ہائے زندگی اور ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے اب اس کھوج میں لگ گئے کے آخر عید غدیر کونسی نئی عید ہے ؟ جو جانتے ہیں وہ جانتے ہیں جو نہیں جانتے وہ جاننے کے درپے ہیں، بہرحال کوئی مانے نہ مانے ہر انسان یہ سوال ضرور کرتا نظر آتا ہے عید غدیر آخر ہے کیا؟ غدیر شناسی کی کامیابی کے لیے اتنا کافی ہے ہر انسان پوچھ رہا کے عید غدیر کیا ہے ؟
مصلحت تو ہمیشہ آڑے آتی رہی، لیکن آج وقت آ گیا کے غدیر کا اظہار پوری شد و مد سے ہونا چاہیے اس لیے کے ایک طرف کچھ لوگ یزید کو بے گناہ ثابت کرنے میں لگے اور ہم اب بھی غدیر کے معاملے میں احتیاط کرتے پھریں تو شاید اس سے بڑھ کر کوئی ظلم ہو گا بعض احباب سے جب پوچھا گیا غدیر کے حوالے سے تو ان نے کہا کے یہ فلاں نے ایجاد کی در حالانکہ یہ ہماری ایجاد نہیں اسلام کی قرآن و فرمان معصوم سے روشن ہے لیکن اس دن کو اس کی روح کے مطابق جیسے آئمہ معصومین علیہم السلام نے فرمایا ویسے نہیں برپا کیا جاتا جس کے لیے ہم قدم اٹھایا ایک ٹیم ریاست کے کونے کونے تک جا پہنچی۔ یقینا ہمارا یہ قدم سیدہ کائنات س کے زخموں کا مرہم قرار پائے کیونکہ غدیر و ولایت کے لیے سب سے پہلی قربانی خاتون جنت فاطمہ زھراء س نے دی یہی وجہ ہے آپ محافظہ و مبلغہ ولایت بی بی قرار پائی ہیں*۔۔ بعض مقامات پر احباب نے راقم الحروف کے ذمے لگایا کے ہماری ایجاد ہے جو کے باعث شرف و سعادت ہے کے ہمارا نام مبلغین غدیر میں پکارا جاتا ہے ۔ بہرحال غدیر کے بارے علمی استعداد میں اضافہ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔۔۔غدیر شناسی امت کی نجات اور غدیر پر جمع ہونا ہی حقیقی وحدت کی تفسیر ہے ۔
جہاں تک اعتراضات کی بات ہے تو علمی جوابات اپنے مقام پر موجود ہیں مختصر جو کہتے کے شہادت کا دن ہے ہم اس لیے عید مناتے تو جناب عالی ہم مکتب امامیہ والے آل محمد ع کی خوشی میں خوش انکے غم میں غمگین ہیں ہمیں کسی اور کا پتہ ہی نہیں، دوسری بات اگر ایسا ہوتا تو پھر شیعوں کے ہاں مرگ یزید پر سب سے بڑی عید ہوتی جبکہ ہمیں مرگ یزید سے کوئی سروکار تک نہیں کب واصل جہنم ہوا ۔ لہذا یاد رکھیں ہمیں آل محمد علیہم السلام سے فرصت ہوگی تو کسی اور کی بات آئیگی ۔ اہم بات غدیر سن دس ھجری کا واقعہ ہے اور ہمیں تو پتہ نہیں کے شہادت کب ہوئی تو ہمارے ذمے لگانے کی کیا ضرورت ہے یہ بھی ایسے ہی ہے جیسے ایک زمانہ تک کہا جاتا رہا شیعوں کے 40 پارے ہیں جبکہ حقیقت سے آج سب آشنا ہیں۔البتہ منکرین غدیر کو مشورہ ہے ذرا تحقیق کریں غدیر پر سب سے پہلے خوش ہونے والے اور مبارکباد دینے والے کون تھے تاریخ گواہ ہے ۔
ملک پاکستان کے اندر ایک گروہ ایسا ہے جسکا کام ہی انتشار پھیلانا ہے جبکہ جس تاریخ وفات کا ذکر اب کچھ عرصہ سے 18 ذی الحج سے جوڑا جاتا خود انکے ہاں وہ تاریخ نہیں انکے اپنے علماء کرام چیخ چیخ کر کہتے 12 ذی الحج ہے غدیر ہو ہو یا محرم جان بوجھ کر اھلبیت ع کے مقامات اور خصوصاً مکتب تشیع کی ضد میں ایسا کیا جاتا جس کی ہمیں پرواہ نہیں۔ بھلا کسی کے مرنے پر عید منانا بھی کوئی تہذیب ہے ۔۔!؟ اور ہاں اگر ہمارے ہاں ہر خوشی کے دن کوئی کسی کا کوئی مر جاتا ہے تو ہم کیا کر سکتے ۔
خلاصہ کلام۔ ۔ضرورت اس امر کی ہے ہیکہ ہم بقیہ عیدوں کی طرح بھرپور انداز سے عید غدیر کا اہتمام کر کے خدا و آل محمد علیہم السلام کی خوشنودی حاصل کریں تاکہ عید کے وسیلہ سے وہ پیغام نسل در نسل آگے منتقل ہو جسے منتقل کرنے کا رسول اسلام ص نے حکم دیا ہے اور حاکمیت مولا کو مان کر گمراہی سے بچا جا سکے ۔۔جس غدیر کے لیے سیدہ کائنات سلام اللہ مدینہ میں مہاجرین و انصار کے گھر گھر جا سکتی ہیں تو کیا ہم غدیر کے لیے کچھ نہیں کر سکتے ؟ اب اپنے تو کیا دوسرے بھی عید غدیر کے معترف نظر آتے ہیں کیونکہ واقعہ غدیر تاریخ کا معتبر ترین واقعہ ہے۔ من کنت مولا فھذا علی مولاہ کے گواہ سوا لاکھ حاجی ہیں ۔رہا مسلہ جن کو رسول ص کے کان والی بات یاد ہے سوا لاکھ کے مجمع میں ہاتھ بلند یاد نہیں انکو عقل کا اندھا کہنا ہی عین عدل ہے ۔شہر بھر میں غدیر بارے بڑی اسکرینز ہوں ، غدیر فیسٹیول سے لیکر سبیلوں تک جس جس نے جہاں جیسے غدیر کے لیے کاوش کی سب مبارکبادی کے مستحق خدا ہم سب سے قبول فرمائے۔
مؤمنین کرام ! کیا ہم نے غدیر کے لیے کچھ کیا یا آئندہ کچھ کرنے کا ارادہ ہے ؟ ایک بار ضرور سوچیں۔